خوشی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کی تلاش میں ہر انسان سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔ مشہور انگریزی مصنف تھامس ہارڈی نے لکھا ہے ’’خوشی‘ درد کے ایک عام ڈرامہ میں مختصر سا وقفہ ہے‘‘ اس مقولہ کا درپردہ مفہوم یہ ہے کہ زندگی مشکل ہے اور خوشی کا حصول بے حد مشکل‘ یہ واقعی سچ ہے۔ لہٰذا زندگی کے صدمات کے باوجود خوشی کی طلب ہرکسی کوہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات لوگوں کو اس بارے میں خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ خوشی حقیقت میں کیا ہے‘ کچھ لوگ اسے موج میلہ اور تفریح منانا سمجھتے ہیں لیکن کسی کو بھی ہروقت تفریح میسر نہیں آسکتی‘ خوشی اس سے کہیں زیادہ گہرائی کی حامل ہے۔ یہ ایک انتہائی متعلقہ اصطلاح ہے جو بات کسی ایک کو خوشی فراہم کرتی ہے وہ دوسرے کیلئے رنج وغم کا سبب بھی ہوسکتی ہے۔
اب جب کہ لفظ خوشی کا انحصار قسمت پر ہے تو پھرہم اسے اپنی زندگی کے مستقل جز ہونے کی توقع کیوں کر کرسکتے ہیں؟ آخر کار ہر شخص قسمت کے غیریقینی ہونے اور اس کی متلون مزاجی سے بخوبی آگاہ ہے۔خوش قسمتی اور بدقسمتی سے تو ہر ایک کا واسطہ پڑتا ہے اور قسمت تو ہمیشہ ہی متغیر رہی ہے اور کبھی بھی مستقل نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر شکار سے لطف تو آسکتا ہے لیکن یہ بات متعلقہ جانور کی ہلاکت سے مشروط ہے ایسی خوشی صحیح اور حقیقی نہیں ہوسکتی۔ اپنی خوشی کی تلاش میں انسان کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ وہ اپنی من مانی نہ کرے بلکہ دوسرے کے جذبات اور احساسات کا بھی خیال رکھے۔
میری نگاہ میں خوشی سے بھرپور ذہن کا مطلب یہ نہیں کہ ہروقت لطف اٹھاتے رہو یا لطیفہ بازی پر مسلسل ہنستے رہو‘ میری رائے میں حقیقی خوشی ذہن میں صحت مندانہ خیالات ہیں جو انسان زندگی کے مختلف تجربات اور مسائل سے دوچار ہونے کے بعد اپنے ذہن میں قائم کرتا ہے۔
لوگ اگر سخت محنت اور کوشش کریں تو اپنے لیے زیادہ خوشیوں کا اہتمام کرسکتے ہیں سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اپنی ذاتی خوشیوں کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ ہم اکثر دوسروںکو اس بات کا الزام دیتے ہیں وہ ہمیں خوشیاں فراہم نہیں کرتے لیکن الزامات سے بات نہیں بنتی بلکہ اس سے تعلقات بگڑ جاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم خوشیوںکیلئے دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ خوشی ہماری اندرونی کیفیت کا نام ہے۔ اکثر اوقات لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ دولت ان کیلئے خوشیاں لاسکتی ہے لیکن کیا تمام امیر لوگ خوش رہتے ہیں؟ قطعی نہیں… ان کے مسائل ہم سے بھی بدتر ہوسکتے ہیں۔
دولت اہمیت ضرور رکھتی ہے اور اس سے عیش و آسائش خریدا جاسکتا ہے لیکن یہ خوشیوں کی ضامن نہیں ہوسکتی۔جب باتیں یا واقعات ہماری پسند کے مطابق ہوتے ہیں تو ہمیں مسرت اور راحت محسوس ہوتی ہے لیکن ایسا ہر وقت تو ممکن نہیں۔ زندگی کے اپنے نشیب و فراز ہیں پھر ہمارے رویے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ کسی گلاس کے خالی حصے کودیکھتے ہیں یا اس کے بھرے ہوئے حصے کو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ہم آیا خوش امید ہیں یا قنوطی‘ خوش امیدی ایک سرمایہ ہے۔
مسائل سے نبرد آزما ہونے کا ہمارا انداز بھی بے حداہمیت کا حامل ہوتا ہے اگر ہم افسردہ بیٹھے کھوئے کھوئے سے رہیں تو ہم کبھی بھی خوش نہیں ہوسکتے۔ ہمیں چاہیے کہ مسئلہ کا جائزہ لیں‘ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آیا ہم اس سے نمٹ سکتے ہیں اور پھر اسے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پریشان ہونے سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ حقیقت میں یہ تو مسئلہ کو اور سنگین بنادے گی۔
ریشماں ان عورتوں میں سے تھی جوہروقت بڑبڑاتی اور شکایتیں کرتی رہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ محسوس کرتی تھی کہ اس کا شوہر اسے نہ تو کوئی وقت دیتا ہے اور نہ خوشی… اپنی بیوی کی ترش روئی اور چڑچڑے پن سے تنگ آکر اس کا شوہر اسے تفریح کرانے ایک پہاڑی مقام پر لے گیا وہ بے حد پرفضاء مقام تھا اور قدرتی مناظر بے حد حسین تھے۔ لیکن ریشماں ایسے رومینٹک اور خوشگوار ماحول میں بھی خوش نہیں ہوئی۔
حقیقت میں اسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ اپنا دماغ بھی اپنے ساتھ لائی ہے۔ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی لیکن اس کے دماغ میں تو وہی مسائل اور منفی خیالات رچے ہوئے تھے جو کہ گھر پر اس کے ذہن میں ہر وقت سمائے رہتے تھے تب بھلا خوشی کہاں سے آسکتی تھی۔ لیکن جب ریشماں نے اپنی ذہنی پریشانیوں کے بارے میں عموماً سوچنا ترک کردیا تب کہیں اسے تفریح میں لطف آنے لگا۔
انسان کو اپنا ذہن صاف اور آزاد رکھنا چاہیے اور اس کیلئے ضروری نہیں کہ تفریح کیلئے کسی مقام پر جایا جائے یہ کام گھر پر بیٹھ کر بھی کیا جاسکتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ذہن کو آرام و سکون کا وقفہ دیں۔
زندگی میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو انسانی اختیار سے باہر ہیں ایک محتاط طریقے سے ترتیب دئیے منصوبے کو قسمت اور نصیب تہس نہس کرسکتے ہیں۔ لیکن انسان کو اس کا سامنا کرنے کیلئے قوت ضرور پیدا کرنی چاہیے۔ اس سے قطع نظر کہ کیا کچھ ہوتا ہے؟ زندگی وہ ہے جو آپ اس سے حاصل کرتے ہیں اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں صبر‘ تحمل رواداری اور توانائی کے خزانے مہیا کیے ہوئے ہیں۔ ہمیں صرف اپنے اندر گہرائی تک جاکر انہیں کھودنا اور تلاش کرنا ہے۔
جب ذہن پریشان ہے اور دل بھی مطمئن نہیں ہے تو پھر خوش رہنے یا قہقہہ لگانے کی خواہش کو تلاش کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ جب ذہن اور دل مطمئن ہوں کہ انہیں جو کچھ چاہیے تھا وہ حاصل ہے تو پھر دماغ باآسانی چہرے کے عضلات کومسکرانے کی کمانڈ دے سکتا ہے اور ذہن اگر خالص وجدانی کیفیت نہ سہی تو لطف و سرور کی مسلسل کیفیت میں قائم رہ سکتا ہے۔ تو پھر خوشیوں کی ریل گاڑی تو قرار دی جاسکتی ہے ‘ خیالات کی ریل گاڑی‘ یقین اور امید کے خیالات جو ایک ایسے ذہن کو ترغیب دے سکتے ہیں جو کہ مسائل اور پریشانیوں سے محروم ہوں‘ تحفظ کے اس احساس کے ساتھ کہ دنیا میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ وہ خیالات جو ماضی کو ذہن سے ہٹادیں اور انہیں حال کو تباہ کرنے سے باز رکھ سکیں۔ وہ خیالات جو مستقبل کے بارے میں فکر مند نہ ہوں بلکہ یہ اعتماد اور خو ش امیدی قائم رکھیں کہ مستقبل میں سب کچھ ٹھیک ہوگا۔ وہ خیالات جو اس حال کے لمحے میں مکمل خوشی فراہم کریں۔
وہ خیالات جوکہ جو دوسروں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہ رکھیں‘ وہ خیالات جہاں آپ اپنے آپ سے مطمئن ہوں۔ وہ خیالات جو ناکامیوں سے کامیابی کا حصول سکھائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں